حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ نے کون نے نام سکھائے؟


تحریر: ابو یحی
سورہ بقرہ آیت 31 میں حضرت آدم علیہ السلام کے حوالے سے یہ بیان ہوا ہے کہ انھیں اللہ تعالیٰ نے تمام اسماء سکھائے تھے۔ان اسما ء یا ناموں کی تفسیر میں تین قول نقل ہوئے ہیں۔ ایک یہ کہ اس سے مراد تمام چیزوں کے نام ہیں۔دوسرایہ فرشتوں کے نام ہیں اور تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد تمام ذریت آدم کے نام ہیں۔ صاحب تدبر قرآن نے یہ تینوں اقوال نقل کرنے کے بعد تیسرے کو ترجیح دی ہے۔ اس کی تفصیل تدبر قرآن میں اس آیت کی تفسیر میں دیکھی جا سکتی ہے۔
اس آخری قول کے مطابق ان آیات کی تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو جب زمین میں خلیفہ بنانے کا اعلان کیا تو فرشتوں نے سوال کیا کہ کیا آپ کسی ایسے کو یہاں خلیفہ بنائیں گے جو زمین پر فساد اور خونریزی کرے۔ چنانچہ اس اعتراض کا جواب دینے کے لیے حضرت آدم علیہ السلام کو ان کی ذریت اور خاص کرانبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین کا تعارف کرایا گیا۔یہی وہ لوگ تھے جو ہر دور میں اپنے قول وفعل سے زمین پرعدل، خیر و صلاح پھیلاتے رہے۔چنانچہ فرشتوں کو یہ بتادیا گیا کہ برے لوگوں کے ساتھ اولاد آدم میں اچھے لوگ بھی پیدا ہوں گے اور یہی وہ گروہ قلیل ہے جس کا حاصل کرنا مقصود ہے۔
آیات کی یہ تفسیر سیاق کلام کے عین مطابق ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسری کسی صورت میں فرشتوں کے اس اعتراض کا جواب سامنے نہیں آتا کہ انسان زمین میں فساد برپا کرے گا۔ اگر حضرت آدم علیہ السلام اور اولاد آدم کے پاس ہر چیز کا علم ہو اور وہ سارے فرشتوں سے بھی واقف ہوں تو اس سے فساد نہ ہونے کا کیا تعلق ہے؟ظاہر ہے کہ انسان ہر دور میں علم کے باوجود فساد مچاتے رہے ہیں اور پہلا فسادی یعنی ابلیس تو ویسے بھی فرشتوں سے اچھی طرح واقف تھا۔ اس لیے اس طرح کی کسی چیز کا علم اس اعتراض کا جواب نہیں تھا۔
اصل جواب صرف یہی تھا کہ بے شک زمین میں بہت سے لوگ فساد مچائیں گے، خونریزی کریں گے ، دوسروں کی جان ، مال اور آبرو کو نقصان پہنچائیں گے۔ مگر بہت سے لوگ ایسے ہوں گے جو فساد مچانے کی طاقت رکھنے کے باوجود عدل و انصاف پر قائم رہیں گے اور ہر پہلو سے اپنامثبت کردار اداکریں گے۔یہی وہ کردار ہے جو تاریخ کے ہر دور میں اولاد آدم کے ایک گروہ نے سرانجام دیا ہے اور آج بھی بکثرت ایسے لوگ موجود ہیں جو اسی سیرت و کردار کے حامل ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے فساد کی خرابی اللہ تعالیٰ نے گوارا کی ہے۔
تاہم زبان و بیان کے پہلو سے اس رائے پر ایک اعتراض وارد ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ کیا محض کسی کا نام بتانا اس کا تعارف کرانے کے ہم معنی ہوتاہے۔ اس کا جواب خود قرآن مجید نے سورہ رعد آیت 33 میں دیا ہے۔وہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میںیہ بتاتے ہوئے کہ وہ ہر شخص کے ہر عمل کی خبر رکھتے ہیں، مشرکین سے سوال کیا ہے کہ تم نے اللہ کے جو شریک بنائے ہیں ان کے نام بتاؤ؟ (قُلْ سَمُّوہُمْ )۔
یہاں یہ بات بالکل واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ بتوں کے نام نہیں پوچھ رہے کہ جواب میں لات، منات ، ھبل اور عزیٰ وغیرہ کا نام لے دیا جائے۔ اصل سوال یہ ہے کہ ان شرکاء کا تعارف کراکے یہ تو بتاؤ کہ ان میں کیا خصوصیات ہیں؟وہ کیا صفات ہیں جو انھیں اس خدا کا ہم سر یا شریک بنادیتی ہیں جو ہر انسان کے ہر عمل سے باخبر ہے۔
یہ آیت قرآن مجید ہی سے زبان و ادب کا وہ نمونہ سامنے لارکھتی ہے جس میں بارہا نام بتانے یا پوچھنے کی تعبیر تعارف کے ہم معنی بن جاتی ہے۔ قرآن مجید چونکہ اعلیٰ ادبی اسلوب میں نازل ہوا ہے جس میں اس طرح کااختصار اور ایجاز معمول کی بات ہے، اس لیے ایسے اسالیب اختیار کرلیے جاتے ہیں۔ اچھا ادبی ذوق رکھنے والے ان کو سمجھنے میں غلطی نہیں کرتے۔


تبصرے